کفار سے دوستی کی مما نعت کا حکم
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے جا بجا اسلام دشمن کفار سے دوستی اور محبت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
چند آیات کا ترجمہ ملا حظہ ہوں
اے لوگو، جو ایمان لوئے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ،یہ آپس میں ایک دوسرے کے
دوست ہیں تم میں سے جو شخص انہیں دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔
اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنا ؤ کیا تم چاہتے ہو کہ
اللہ تعالٰی کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو۔
مومن اہل ایمان کو چھوڑ کو کافروں کا اپنا دوست نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ تعالٰی سے کوئی تعلق نہیں
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! میرےاوراپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
اے لوگو، جوایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا دوست نہ بنا ؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں
وہ لوگ جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں ایسے منافقوں دردناک عزاب کی خوشبری سنا دو۔
سورہ ہود میں کفار کے عقائد ، نظریات ،کلچر اور تہزیب وتمدن کو محض پسندید گی کی نگاہ سے دیکھنے پر ہی جہنم کو عزاب
کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالٰی:ظالموں کی طرف با لکل نہ جھکو ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے۔
یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کفار کے ساتھ دوستی اور محبت سے اللہ تعالٰی نے اتنی سختی اور
شدت سے
کیوں منع فرمایا ہے؟ دنیا میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کا آپس میں لین دین،تجارتی تعلقات، سفاری تعلقات اور آمدورفت
ایسی مجبوریاں ہیں ، جن سے کوئی مفر نہیں ۔ پھر مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے اتنی سخت آزمائیش میں کیو ں ڈالا ہے؟
قرآن مجید میں االلہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر خود ہی اس کا جواب ارشاد فرمایا ہے۔ چند مقامات پیش خدمت ہیں
کفار چاہتے ہے جس طرح وہ خود کافر ہے اسی طرح تم بھی کوفر ہوجاؤ تاکہ تم اور وہ سب برابر ہو جایئں
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے مومن ساتھیوں کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا راز نہ بتاؤ ،کیونکہ وہ
تمہیں ہلاک کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،جس بات سے تمہیں تکلیف پہنچے اس سے وہ کوش ہوتے ہیں
ان بغض ان کی زبانوں سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں چھپا ہے وہ اس سے کہیں بڑا ہے
مزکورہ آیت میں اللہ تعالٰی نے کفار سے دشمنی رکھنے کے چار بنیادی اسباب بتادیئے ہیں
کافر،مسلمانوں کو ہر قیمت پر ہلاک کرنا چاہتے ہیں
مسلمانوں کی تکلیف پر کفار کو خوشی ہوتی ہے
کافر مسلمانوں کے خلاف شدید بغض رکھتےہیں
را بعاً ان کے دلوں میں چھپی ہوئی دشمنی اس دشمنی سے کہیں زیادہ ہے جس کا وہ اظہار کر تے ہیں ۔
غور فرمایئے! اگر کسی آدمی کو واقعتاًس بات کا یقین ہوجائے کہ جس شخص سے وہ دوستی کرنے جارہا ہے وہ اس کا قدر دشمن
ہے کہ اسے ہلاک کرنے کے درپے ہے اس کی تکلیف پر اسے خوشی ہوتی ہے۔کیا کوئی بھی غیرت مند اور ہوش مند آدمی ایسے
دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے تیار ہوگا؟ ہرگز نہیں!بلکہ ایسے خطرناک دشمن کے بارے میں تو ہر شخص یہ چا ہے گا کہ جتنا
جلد ممکن ہو تھکانے لگا دیا جائے۔لیکن افسوس ہمارے حال پر کہ دین کے معا ملہ میں اللہ کریم نے بار بار وضاحت کے ساتھ
ہمیں کفار کی شدید دشمنی سے آگاہ فرمایا ہے لیکن ہم اس فائدہ اٹھانے کے بجائے اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ سبحانہ و تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں تم ان سے محبت کرتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ تم ساری کتب آسماوی کو مانتے
ہو،جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی(تمہاری کتاب اور رسول کو ) مانتے ہیں مگر جب تم سے الگ ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے
غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں، ان سے کہو اپنے غصہ میں جل مروبے شک اللہ تعالٰی سینوں کے بھید تک جانتا ہے۔
اس آیت میں بھی اللہ تعا لٰی نے ایسی ٹھوس حقیقت بیان فرمائی ہے جس کا مشاہدہ آج ہر مسلمان اپنی کھلی آنکھوں سے کررہے ہے اور وہ یہ کہ مسلمان
کفار کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ان سے محبت کر رہے ہیں ان کی ساری باتیں مانتے چلے جارہے ہیں جبکہ کافر آئے روز مسلمانوں کے خلاف
پہلے سے زیادہ غیظ و غضب کا اظہار کرتے چلے جارہے ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ مشکلات اور مصا ئب میں پھنسا تے چلے جارہے ہیں اور آئندہ
طرح طرح سے ان پر ظلم توڑنے کے منصوبے بنارہے ہیں لیکن حیف ہے مسلمانوں کے حال پر کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود
اللہ تعالٰی کے احکام سے روگروانی کررہے ہیں
اللہ تعالٰی نے ہمیں اسلام دشمن کفار کے بارے میں یہاں تک آگاہ فرمادیا ہے کہ وہ تمہارے دین کو ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ کسی غیرت مند اور عقل و خردر رکھنے والے شخص کے لئے اپنے دشمن سے انتقلام لینے اور اسے انجام تک پہنچانے
کے لئے جرائم کی اتنی فہرست بھی بہت ہے جس کا ذکر ہم نے گز شتہ صفحات میں کردیا ہے جبکہ قرآن مجید میں کفار کے بیان کئے گئے جرائم کی
فہرست اس سے کہیں زیادہ طویل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نہ صرف مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ دوستی کرنے،اتحاد کرنے اور ان کی
باتیں ماننے سے سختی سے منع فرمایا ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ان
سے نفرت،بیزاری،قطع تعلق اور بیر رکھنے کا حکم دیاہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین
نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے، جن کی تم بندگی کرتے ہو االلہ کو چھوڑ
کر، قطی بیزار ہیں ہم نے (تمہارے دین سے ) انکار، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے وداوت اور بیر پڑ گیا جب تک تم ایک
اللہ پر ایمان نہ لے آؤ ۔ سورۃ الممتحنہ کی آیت سے درج ذیل تین باتیں معلوم ہوتی ہیں
کفار کے کفر سے واضح طور پر اظہار ربیزاری اور اظہار نفرت کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔
کفار کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی عداوت دشمنی اور بیرکا کھلا کھلا اظہار اس وقت تک کرنا چاہئے جب تک وہ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔